قَالُوا أُوذِينَا مِن قَبْلِ أَن تَأْتِيَنَا وَمِن بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۚ قَالَ عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ
انھوں نے کہا ہمیں اس سے پہلے ایذا دی گئی کہ تو ہمارے پاس آئے اور اس کے بعد بھی کہ تو ہمارے پاس آیا۔ اس نے کہا تمھارا رب قریب ہے کہ تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمھیں زمین میں جانشین بنا دے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔
[١٢٦] بنی اسرائیل پر مصائب، صبر کی تلقین اور وعدہ فتح ونصرت :۔ جب بنی اسرائیل کو دوبارہ ایسی سخت آزمائش میں ڈال دیا گیا وہ سخت پریشان ہوگئے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کے طور پر کہنے لگے کہ تمہارے آنے سے پہلے بھی ہم پر یہی ظلم و ستم ہوتا رہا اور اب تم پر ایمان لانے کی بعد بھی ہم دوبارہ وہی ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کا ظلم توڑ کے رکھ دیتا ہے بس تم اللہ سے مدد مانگتے رہو عنقریب وہ تمہارے اس دشمن کو ہلاک کر کے تمہیں اس سرزمین میں حکومت عطا کرے گا پھر تمہاری ایک دوسرے انداز سے آزمائش ہوگی آج تمہاری آزمائش سختیوں اور مظالم سے ہو رہی ہے کہ تم صبر سے برداشت کرتے ہو یا نہیں پھر تمہیں حکومت عطا کر کے دیکھے گا کہ تم حاکم بن کر کیسے کام کرتے ہو۔ واضح رہے کہ جس دور میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایسے ہی مصائب و شدائد کے دور سے گزر رہے تھے اور بمصداق گفتہ آید در حدیث دیگراں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی صبر کی تلقین کی جا رہی ہے اور ان سے حکومت ملنے کا وعدہ فرمایا جا رہا ہے۔