سورة الاعراف - آیت 116

قَالَ أَلْقُوا ۖ فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہا تم پھینکو۔ تو جب انھوں نے پھینکا، لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انھیں سخت خوف زدہ کردیا اور وہ بہت بڑا جادو لے کر آئے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٧] اور موسیٰ علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ازراہ تکریم نہیں تھا نہ ہی اس لئے کہ ان کی نگاہ میں جادوگر کوئی قابل تعظیم چیز تھے بلکہ اس لیے کہ حق کی وضاحت ہو ہی اس صورت میں سکتی ہے کہ پہلے باطل اپنا پورا زور دکھا لے پھر اس کے بعد اگر حق غالب آئے تو سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ مثلاً اگر موسیٰ علیہ السلام پہلے اپنا عصا ڈال دیتے تو ممکن تھا کہ مقابلے کی نوبت ہی نہ آتی اور جادوگر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے تو لوگوں میں کئی طرح کے شکوک پیدا ہو سکتے تھے یا دوبارہ مقابلے کے لیے جادوگر وقت طلب کرسکتے تھے۔ [١١٨] جادوگروں کا بہت بڑا جادو :۔ جادوگروں نے جب میدان میں اپنی لاتعداد لاٹھیاں اور رسیاں لا پھینکیں اور جادو کے ذریعے لوگوں کی نظر بندی کردی تو لوگوں کو سارا میدان متحرک سانپوں سے بھرا ہوا نظر آنے لگا لوگ دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ اس شاہی دنگل کے لیے جادوگروں نے اتنی تیاریاں کی تھیں کہ اتنے بڑے جادو کی سابقہ ادوار میں نظیر ملنا مشکل تھی۔