قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ
یقیناً ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا اگر ہم تمھاری ملت میں پھر آجائیں، اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں اس سے نجات دی اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اس میں پھر آجائیں مگر یہ کہ اللہ چاہے، جو ہمارا رب ہے، ہمارے رب نے ہر چیز کا علم سے احاطہ کر رکھا ہے، ہم نے اللہ ہی پر بھروسا کیا، اے ہمارے رب! ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔
[٩٤] شعیب علیہ السلام کا جواب :۔ شعیب علیہ السلام نے جواب میں کہا تمہاری یہ دونوں باتیں ہمیں نامنظور ہیں وہ اس لیے کہ اگر ہم دوبارہ تمہارا دین اختیار کرلیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اور میرے ساتھی آج تک جھوٹ ہی بولتے رہے اور اللہ کے ذمے جھوٹ ہی لگاتے رہے پھر جس کام پر اللہ نے مجھے مامور فرمایا ہے اگر میں ہی یا میرے ساتھی ہی اس کی خلاف ورزی کرنے لگیں تو ہم سے بڑھ کر بے انصاف کون ہوگا ؟ اور ان شاء اللہ ہمارا عزم یہی ہے کہ ہم اپنے دین پر نہایت عزم سے ثابت قدم رہیں گے اور اللہ کی توفیق ہمارے شامل حال رہی تو ہم کبھی تمہارے دین میں جانا پسند نہیں کریں گے رہی دوسری بات کہ تم لوگ ہمیں یہاں سے نکال باہر کرو گے تو ہمیں یہ بات بھی پسند نہیں ہاں اگر تم ہمیں مجبور کر کے زبردستی یہاں سے نکالنا چاہتے ہو تو کر دیکھو مگر ہوگا وہی جو کچھ اللہ ہمارے پروردگار کو منظور ہوگا۔ ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور ہمارا سارا معاملہ اللہ ہی کے سپرد ہے۔ [٩٥] جب حق و باطل کی محاذ آرائی اس حد تک پہنچ گئی کہ معاندین اور سرکش سردار سیدنا شعیب علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنے پر آمادہ ہوگئے اس وقت سیدنا شعیب علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ! اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ان ظالموں کو مزید پند و نصیحت کے فائدہ کا کچھ امکان باقی نہیں رہ گیا لہٰذا اب ان کے اور ہمارے درمیان تو خود ہی فیصلہ کر دے کہ اب آئندہ کے لیے ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔