سورة البقرة - آیت 96

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً تو انھیں سب لوگوں سے زیادہ زندہ رہنے پر حریص پائے گا اور ان سے بھی جنھوں نے شرک کیا۔ ان کا (ہر) ایک چاہتا ہے کاش! اسے ہزار سال عمر دی جائے، حالانکہ یہ اسے عذاب سے بچانے والا نہیں کہ اسے لمبی عمر دی جائے اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١١٣] یہود کی جینے کی ہوس :۔ مشرکین نہ آخرت کے قائل تھے نہ عذاب و ثواب کے اور نہ جنت و دوزخ کے لہٰذا ان کو مرنے کے بعد کوئی خطرہ نظر نہیں آتا تھا۔ جب کہ یہود روز جزا کے قائل تھے، اور اپنی بدکرداریوں کا حال بھی انہیں خوب معلوم تھا۔ لہٰذا وہ تادیر دنیا میں زندہ رہنے کے لیے مشرکوں کی نسبت بہت زیادہ حریص تھے اور آیت علیٰ حیوۃ کے لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو بس دنیا کی زندگی کی ہوس ہے۔ وہ زندگی خواہ عزت کی ہو یا ذلت کی۔ اس سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ حالانکہ یہی لمبی زندگی آخرت میں انہیں بچانا تو درکنار ان کے لیے اور زیادہ عذاب کا سبب بن جائے گی۔