وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِن بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِن سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا ۖ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور یاد کرو جب اس نے تمھیں عاد کے بعد جانشین بنایا اور تمھیں زمین میں جگہ دی، تم اس کے میدانوں میں محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو مکانوں کی صورت میں تراشتے ہو۔ سو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
[٧٨] قوم ثمود کے گھروں کی ساخت :۔ ان لوگوں کے قد و قامت بھی بہت بڑے اور عمریں بھی بہت لمبی ہوتی تھیں اور اگر وہ عام لکڑی کی چھت والے مکان بناتے تو بنانے والے کی زندگی ہی میں کئی بار بوسیدہ ہو کر گر پڑتے تھے۔ عام روایت کے مطابق اس دور میں ان کی عمریں تین سو سے چھ سو سال کے درمیان ہوتیں اور لکڑی کے مکان زیادہ سے زیادہ ایک سو سال چلتے پھر بوسیدہ اور کمزور ہو کر گر پڑتے تھے اس لیے وہ اپنے مکان پہاڑوں میں بناتے۔ اعلیٰ درجے کے سنگ تراش اور انجینئر تھے۔ پہاڑوں کو اندر سے تراش تراش کر مکان بنا لیتے جن میں کھڑکیاں دروازے سب کچھ موجود ہوتا تھا اور ان کی پائیداری کی وجہ سے ایک طویل عرصہ وہاں گزار سکتے تھے اور کسی ہموار زمین پر مکان بناتے تو وہ بھی اتنا مضبوط ہوتا جیسے کوئی محل کھڑا کردیا گیا ہو۔ [٧٩] قوم ثمود کا فساد فی الارض :۔ جب ان لوگوں کی اکثریت اپنا مطلوبہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی تو صالح علیہ السلام نے انہیں اللہ کے احسانات یاد کرائے اور فرمایا : قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی تو ان کا حشر تم نے دیکھ لیا پھر اللہ نے تمہیں ان کا قائم مقام بنایا تمہیں قوت دی اور اتنی طاقت اور خوش حالی دی کہ تم رہنے کے لیے معمولی گھروں کے بجائے محل بنا کر رہتے ہو تو اللہ کے ان احسانات کا شکریہ ادا کرو اور فساد فی الارض کے موجب نہ بنو۔ یہاں فساد فی الارض سے مراد کفر و شرک کو اختیار کرنا، انبیاء کی دعوت ہدایت کو ازراہ تکبر ٹھکرا دینا۔ دعوت قبول کرنے والوں کا استہزاء اور ان پر سختیاں روا رکھنا، اور ان سے محاذ آرائی ہے اور ان سب باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی اپنی سرداریاں ختم نہ ہوجائیں۔ پھر اس قسم کے معاشرے میں یہ متکبر قسم کے بڑے لوگ غریبوں کا جس طرح استحصال کرتے ہیں اور ان پر ظلم روا رکھتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور یہ سب باتیں فساد فی الارض کے ضمن میں آتی ہیں۔