وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کسی برے طریقے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔
[٧٧] سیدنا صالح علیہ السلام کا مرکز تبلیغ اور قوم ثمود :۔ قوم ثمود کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع تھا انہیں قرآن کریم نے اصحاب الحجر بھی کہا ہے حجر ان کے ایک بارونق شہر کا نام تھا جو مدینہ سے تبوک کے راستے پر واقع ہے چنانچہ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو مقام حجر پر اترے۔ کچھ صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین نے جلدی سے وہاں کے کسی کنوئیں سے پانی لے کر آٹا گوندھ لیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گوندھے ہوئے آٹے کو پھینک دینے یا اونٹوں کو کھلا دینے کا حکم دیا اور جو پانی مشکوں میں بھرا گیا تھا اسے بہا دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو وہ کنواں دکھلایا جہاں سے صالح علیہ السلام کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر پانی لینا ہے تو اس کنوئیں سے لے کر استعمال کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلد از جلد وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گنہگاروں کی بستیوں میں نہ جایا کرو مگر روتے ہوئے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو عذاب ان پر آیا تھا کہیں تم پر بھی آن پڑے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کجاوے ہی پر اپنا منہ چادر سے ڈھانک لیا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء۔ باب قول اللہ والی ثمودا خاہم صالحا ) یہ قوم بھی بت پرستی میں مبتلا تھی صالح علیہ السلام نے کہا : لوگو! ایک اللہ کے سوا تمہارا کوئی نہ حاجت روا ہے اور نہ مشکل کشا۔ لہٰذا تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے اور اسی سے فریاد کرنا چاہیے اور میں تمہیں تمہارے پروردگار کا رسول ہونے کی حیثیت سے یہ پیغام دے رہا ہوں۔ اللہ کی اونٹنی اور اس کے اوصاف :۔ انہوں نے کہا کہ اپنی نبوت کی صداقت پر کوئی حسی معجزہ ہمیں دکھلا دو تب ہم تمہاری بات تسلیم کرلیں گے آپ نے پوچھا کیسا معجزہ چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی تم اللہ کے رسول ہو اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ سیدنا صالح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی تو پہاڑ پھٹا جس سے ایک بہت بڑے قد و قامت کی اونٹنی برآمد ہوئی جس نے ان کے سامنے بچہ جنا اس وقت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اس اونٹنی کو آزادانہ چلنے پھرنے دو کیونکہ یہ تمہارا مطلوبہ معجزہ اور اللہ کی نشانی ہے جہاں سے چاہے چرتی پھرے اور جہاں سے چاہے پانی پئے اب صورت حال یہ تھی کہ ایک تو اس علاقہ میں پہلے ہی پانی کی قلت تھی دوسرے یہ قد آور اور بہت بڑے ڈیل ڈول کی اونٹنی ایک دن میں اتنا پانی پی جاتی تھی جتنا ان کے سارے جانور پیتے تھے۔ اس لیے سیدنا صالح علیہ السلام نے کہا کہ باری مقرر کرلو اس کنوئیں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پیا کریں اور ایک دن یہ اونٹنی (جسے اللہ نے دوسرے مقام پر ناقتہ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی کہا ہے) پانی پیا کرے گی اور ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ کردی کہ اگر تم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا۔