وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ اس طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں جو شکر کرتے ہیں۔
[٦٢] معاشرے میں دو قسم کے لوگ :۔ سابقہ آیت میں مردہ زمین کے زندہ ہوجانے سے اخروی زندگی پر استدلال کیا گیا ہے اور اس آیت میں مختلف قسم کے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو زمین کے مختلف طبقات کے مانند قرار دے کر لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے یعنی جس طرح زمین کے بعض قطعات عمدہ، زرخیز اور شاداب ہوتے ہیں اور بعض ردی ہوتے ہیں جن میں مفید نباتات کی بجائے جھاڑ جھنکار ہی پیدا ہوتا ہے حالانکہ ان سب پر بارش ایک ہی جیسی برستی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کیفیت ہے اور وحی الٰہی کی باران رحمت سے سلیم الفطرت لوگ تو خوب پھلتے پھولتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں خبث بھرا ہوتا ہے۔ اس باران رحمت کے بعد ان کے اندر سے وہی خبث باطن جھاڑ جھنکار کی صورت اختیار کر کے باہر نکل آتا ہے اور انہیں اعتراضات اور استہزاء کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اس مثال کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند معروف انبیاء کی دعوت کا ذکر کر کے بتلایا کہ ان کی مخاطب قوم اسی طرح دو حصوں میں بٹ گئی ایک سلیم الفطرت لوگ تھے جو وحی الٰہی کی باران رحمت سے خوب برگ و بار لائے دوسرے خبیث سرشت والے، جن کے اندر کا کھوٹ اسی باران رحمت سے جھاڑ جھنکار کی صورت میں باہر نکل آیا۔ آخر کار اس خبیث عنصر کو اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح ایک مالی اپنے باغ سے جھاڑ جھنکار کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے۔