وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ہم کسی شخص کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتے، یہ لوگ جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
[٤١] یعنی جنت میں داخلے کی خاطر ہر ایک کے لیے ایک ہی مقررہ مقدار عمل ضروری نہیں بلکہ ہر ایک شخص کا اس کی استعداد اور قوت کار کے مطابق ہی امتحان لیا جاتا ہے اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک لکھ پتی آدمی سو روپے صدقہ کرتا ہے اور اسی وقت ایک مفلس پانچ روپے صدقہ کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مفلس کے پانچ روپے صدقے کی قدر و قیمت لکھ پتی کے سو روپے کے صدقے کی قدر و قیمت سے زیادہ ہو، لہٰذا ہر شخص کے احوال و ظروف کا لحاظ رکھ کر اور اس کے اعمال کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ لگانے کے بعد اسے جنت میں داخل کیا جائے گا۔