فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ أُولَٰئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
پھر اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا اس کی آیات کو جھٹلائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں لکھے ہوئے میں سے ان کا حصہ ملے گا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے بھیجے ہوئے آئیں گے، جو انھیں قبض کریں گے تو کہیں گے کہاں ہیں وہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے تھے؟ کہیں گے وہ ہم سے گم ہوگئے اور وہ اپنے آپ پر شہادت دیں گے کہ واقعی وہ کافر تھے۔
ظالم کون ہیں: جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں۔ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کو انکا مقدر یعنی انھیں سزا ضرور ملے گی ان کے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا اللہ کے وعدے وعید پورے ہوکر رہیں گے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کی عمر، عمل، رزق جو ان کے مقدر میں ہے یعنی ان کے مقدر میں جو عمر اور رزق ہے اُسے پورا کرلینے کے بعد اور جتنی عمر اس کی ہے اس کو گزار لینے کے بعد بالآخر موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُوْنَ﴾ (یونس: ۶۹) ’’جولوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہونگے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر بالآخر ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی روحوں کو قبض کرنے کے لیے ہمارے فرشتے ہیں تو ان کو بطور طنز کہتے ہیں کہ اب اپنے معبودوں کو کیوں نہیں پکارتے کہ وہ تمہیں اس عذاب سے بچالیں۔ تو یہ نہایت حسرت سے جواب دیتے ہیں کہ افسوس وہ تو ہم سے کھوگئے، ہمیں ان سے اب کسی نفع کی اُمید نہیں رہی۔ پس اپنے کفر کا آپ ہی اقرار کرتے ہیں۔