وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب وہ کوئی بے حیائی کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اس پر پایا اور اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ کہہ دے بے شک اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگاتے ہو جو تم نہیں جانتے۔
دور جاہلیت میں عرب لوگ ننگا ہوجانے کو معیوب نہیں سمجھتے تھے۔ اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت میں طواف کرتے ہیں جس میں ہماری ماؤں نے ہمیں جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم جو لباس پہنتے ہیں تو اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ عورتیں بھی ننگا طواف کرتیں صرف اپنی شرمگاہ پر کوئی کپڑا یا چمڑے کا کوئی ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرمناک فعل کے لیے دو عذر انھوں نے اور پیش کیے۔ (۱) ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے ہوئے پایا ہے۔ (۲) اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتے ہیں کہ اے نبی! اُن سے کہہ دیجئے کہ اللہ بے حیائی کے کاموں کا حکم نہیں کرتا، ایک تو بُرا کام کرتے ہو دوسرے جھوٹ موٹ اس کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہو۔ اس آیت میں ان مقلدین کے لیے بھی سخت تنبیہ ہے جو آباء پرستی، پیر پرستی اور شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں۔ یہ بھی حق بات کے خلاف یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے ہیں یا ہمارے امام اور پیر اور شیخ کا یہی حکم یہی وہ خصلت ہے جسکی وجہ سے یہودی یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پراور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے ہیں۔ (فتح القدیر: ۳/ ۲۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں، غیرت ہی کی وجہ سے اس نے (تمام) بے حیائیوں کو حرام کر دیا ہے۔‘‘ (مسلم: ۷۱۶۸) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن کا واقعہ، خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے پتھر لارہے تھے کندھے زخمی ہوگئے۔ چچانے تہبند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ بیہوش ہوکر گر گئے اور تہبند تہبند پکارتے رہے آپ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ با حیاء تھے۔ (بخاری: ۱۵۸۲)