وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اور اے آدم ! تو اور تیری بیوی اس جنت میں رہو، پس دونوں کھاؤ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے قریب مت جاؤ کہ دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔
شیطان انسان کو کبھی بُرا راستہ دکھا کر گمراہ نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اُسے سبز باغ دکھا کر گمراہ کرتا ہے کہ اگر یہ کام کرو گے تو تمہاری حالت بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ حضرت آدم و حوا کو بھی اس نے ایسے ہی سبز باغ دکھائے، کہ اگر تم اس درخت کا پھل کھالو گے تو پھر فرشتوں کی طرح یا فرشتے بن جاؤ گے تو پھر تم ہمیشہ ہمیشہ اس جنت میں رہو گے لمبی عمر پاؤ گے۔ ابلیس کے چیلے چانٹے صرف سبز باغ ہی نہیں دکھاتے بلکہ طرح طرح کے دلائل دے کر یقین دہانی کرادیتے ہیں کہ جو راہ اس نے دکھائی ہے وہ فی الواقع بہتری اور خیر خواہی کی راہ ہے اس میں اس کا اپنا کچھ مفاد نہیں اور اس یقین دہانی کے لیے قسمیں بھی کھانا پڑیں تو کھائے جاتا ہے۔