وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ ۚ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور اس دن وزن حق ہے، پھر وہ شخص کہ اس کے پلڑے بھاری ہوگئے، تو وہی کامیاب ہونے والے ہیں۔
ان آیات میں وزن اعمال سے متعلق بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے دن ہوگا جیسے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر اور احادیث میں بھی بیان کیاگیا ہے۔ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے، جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا وہ ناکام ہوگا سوال ہے کہ یہ اعمال کس طرح تو لے جائیں گے، کیونکہ ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرمادے گا اور ان کا وزن ہوگا دوسرا قول یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تولے جائیں گے جن میں انسان کے عمال درج ہونگے، تیسرا قول یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا۔ تینوں مسلکوں والوں کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لیے امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں۔ اور میزان اور اعمال کا مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس سے انکار یا تاویل گمراہی ہے اور موجودہ دور میں تو انکار کی بالکل گنجائش نہیں کہ بے وزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔ ﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ﴾ (الانبیاء: ۴۷) ’’اور قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے ترازو ٹھیک ٹھیک تولنے والی پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا، ہم اُسے حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، وہ نیکی کو بڑھاتا ہے اور اپنے پاس سے اجر عظیم بھی عطا فرماتا ہے۔