وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو، کہہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے ہیں یا دونوں مادہ؟ یا وہ (بچہ) جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں؟ یا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے تمھیں اس کی وصیت کی تھی؟ پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، تاکہ لوگوں کو کسی علم کے بغیر گمراہ کرے۔ بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
سب سے بڑا ظلم: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ میں نے عمر و بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھینچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ کے لیے جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔‘‘ (بخاری: ۴۶۲۳) امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں عمرو بن لحی، خزاعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا والی بنا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی اور حجاز میں بُت قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں۔ (ابن کثیر: ۲/ ۳۰۱) کسی چیز کی تحقیق کے لیے دو طرح کی شہادتیں ضروری ہیں۔ (۱) یقینی علم کی بناء پر۔ (۲) آنکھوں دیکھی شہادت کی بنا پر۔ اس سے پہلی آیت میں (نَبِّؤُنِیْ بِعِلْمٍ) (مجھے علم وحی کی کوئی بات بتاؤ) کہہ کر علمی شہادت کی تردید فرمائی اس آیت کے آخر میں یہ فرما کر کہا ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے ایسا حکم دیا تھا، عینی شہادت کی تردید فرمائی اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے۔‘‘ ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی اور شرک کا ارتکاب بھی ہے۔