يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمھارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے، جو تم پر میری آیات بیان کرتے ہوں اور تمھیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں؟ وہ کہیں گے ہم اپنے آپ پر گواہی دیتے ہیں اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ یقیناً وہ کافر تھے۔
یہ ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش ہے جو قیامت کے دن انسانوں اور جنوں کو اللہ کی طرف سے ہوگی، ان سے سوال ہوگا کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس میرے بھیجے ہوئے رسول نہیں آئے تھے یاد رہے کہ سب رسول انسان ہی تھے کوئی جن رسول نہیں ہوا۔ جنات میں نیک لوگ جنوں کو نیکی کی تعلیم کرتے تھے بدی سے روکتے تھے، آدم علیہ السلام کے وجود کے بعد جنات رسولوں کے ہی تابع رہے: ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ اِلَّا اِنَّهُمْ لَيَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَ يَمْشُوْنَ فِي الْاَسْوَاقِ﴾ (الفرقان: ۲۰) ’’تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے، سب کھانا کھاتے تھے، اور بازاروں میں آتے جاتے تھے۔‘‘ ﴿وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى ﴾ (یوسف: ۱۰۹) ’’تجھ سے پہلے ہم نے مردوں کو ہی بھیجا جو بستی والوں ہی سے تھے، جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے۔‘‘ جواب میں سب کہیں گے کہ ہاں ہمیں اقرار ہے کہ تیرے رسول ہمارے پاس ائے اور تیرا کلام بھی پہنچایا اور اس دن سے متنبہ بھی کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انھوں نے دنیا کی زندگی دھوکے میں گزاری رسولوں کو جھٹلاتے رہے، معجزوں کی مخالفت کرتے رہے دنیا کی آسائشوں کے پیچھے پڑے رہے، قیامت کے دن اپنی زبانوں سے کفر کا اقرار کریں گے کہ ہاں بیشک ہم نے نبیوں کی نہیں مانی۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ’’رسول اللہ نے میرے جسم کے کسی حصے کو چھوا اور فرمایا دنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا راہ چلتے مسافر ہو، اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو، صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو، اپنی صحت کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو، زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔‘‘ (بخاری: ۶۴۱۴) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔‘‘ (ترمذی: ۲۳۲۴، ابن ماجہ: ۴۱۱۳) میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے کبھی اپنے مشرک ہونے سے انکار کریں گے، کبھی اقرار، جسے یہاں انکا اقرار بتایا گیا ہے۔