وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور جس دن وہ ان سب کو جمع کرے گا، اے جنوں کی جماعت! بلاشبہ تم نے بہت سے انسانوں کو اپنا بنا لیا، اور انسانوں میں سے ان کے دوست کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے بعض نے بعض سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنے اس وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا۔ فرمائے گا آگ ہی تمھارا ٹھکانا ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو مگر جو اللہ چاہے۔ بے شک تیرا رب کمال حکمت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
یوم حشر: وہ دن بھی قریب ہے جب کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا، جنات، انسان عابد، و معبود سب ایک میدان میں کھڑے ہونگے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جنات سے فرمائے گا کہ انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنا لیا۔ ﴿اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۔ اَنِ اعْبُدُوْنِيْ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ۔ وَ لَقَدْ اَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيْرًا اَفَلَمْ تَكُوْنُوْا تَعْقِلُوْنَ﴾ ( یٰٓس: ۶۰۔ ۶۲) ’’اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے۔ اور اس شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے۔‘‘ اس وقت جنات کے دوست انسان جواب دیں گے کہ ہاں انھوں نے حکم دیا اور ہم نے عمل کیا، دور جاہلیت میں جب کوئی شخص جنگل میں پھنس جاتا تو کہتا کہ وادی کے بڑے جن کی پناہ میں آتا ہوں۔ ان لوگوں کے وہم کے مطابق ہر جنگل کا الگ الگ بادشاہ ہوتا تھا۔ اور جو شخص اسکی پناہ مانگتا تو وہ اس کی فریاد کو پہنچتا اور اس طرح وہ اپنے آپ کو آدمیوں کا بھی سردار سمجھتے تھے۔ انسانوں کا فائدہ اٹھانا: شیاطین و جنات کی طرف سے جو غیبی خبریں کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں انسان ان کی تصدیق کرتے، گویا جنات نے انسانوں کو بے وقوف بناکر ان سے فائدہ اٹھایا اور انسانوں کا فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ انسان جنات کی بیان کردہ جھوٹی اور اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔ یہ سارا کاروبار چونکہ جادو سے ملتا جلتا ہے اور قرآن کی نظر میں یہ کفر ہے اسی لیے ایسے جنوں اور انسانوں کی سزا دوزخ ہے۔ گناہوں کی سزا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگی لہٰذا ایسے لوگوں کے عذاب دوزخ کی مدت میں کمی بیشی عین انصاف کے مطابق ہوگی۔