فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ اسے گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ، نہایت گھٹا ہوا کردیتا ہے، گویا وہ مشکل سے آسمان میں چڑھ رہا ہے، اسی طرح اللہ ان لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
انشراح صدر کیا ہے: سینہ کھول دینا اسلام کے لیے۔ مراد یہ ہے کہ وہ فراخ دلی سے اسلام کی دعوت قبول کرلیتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’یعنی اللہ ان کے سینے اسلام کی طرف کھول دیتا ہے اور انھیں اپنا نور عطا فرماتا ہے۔‘‘ مومن کا دل اللہ کے نور سے وسیع ہوجاتا ہے پھر وہ آخرت کی تیاری کی طرف لگ جاتا ہے دنیا سے دور ہوتا ہے۔ اسلام کی صداقت پر مطمئن ہوتا ہے حق کو قبول کرلیتا ہے اللہ کا ارادہ انسان کے ارادہ کے موافق ہوتا ہے جو ہدایت پانا چاہتا ہے اللہ اسکا سینہ کھول دیتا ہے۔ اسلام کے لیے سینہ تنگ ہونے سے مراد: ایسے افراد جن کو اسلام سے کوئی رغبت نہ ہو۔ جو کہتے ہیں رسم و رواج پر نہ چلا تو اجنبی بن جاؤں گا، مصلحتیں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ لڑائی ختم ہوجاتی ہے۔ تکبر کی وجہ سے فطرت، گمراہی کی طرف متوجہ ہو۔ ایسے لوگوں کے دلوں میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں ہوتا۔ عام طور پر انسان جب بلندیوں پر سفر کرتا ہے تو سینے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے اسی طرح اللہ انھیں رجس میں مبتلا کردیتا ہے۔ ذہنی اور شعوری گندگی میں الجھ جاتا ہے معاشرے کی آلودگیوں میں پڑجاتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ اسلام باوجود کشادہ اور آسان ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے۔ پس مردہ دل والے کبھی بھی اسلام قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بے ایمانوں پر شیطان مقرر کردیتا ہے جو انھیں بہکاتے رہتے ہیں اور خیر سے ان کے دل تنگ کرتے رہتے ہیں نحوست ان پر برستی رہتی ہے اور عذاب ان پر اُتر آتے ہیں۔