وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ
اور تاکہ ان لوگوں کے دل اس (جھوٹ) کی طرف مائل ہوں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور تاکہ وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ بھی وہی برائیاں کریں جو یہ کرنے والے ہیں۔
شیطانی وساوس کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں وہی اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اللہ تعالیٰ نے اسی لیے انبیاء کی دشمنی اور گمراہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے تاکہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوں، اور جو برائیاں کرنا چاہتے ہیں کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ان كی وجہ سے اپنے نبیوں كی اولو العزمی اپنے بندوں كو دكھا دیتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بادشاہت کو لوگ دیکھنے آئے پوچھا خلیفہ کون ہے، کہا وہ جارہا ہے۔ حضرت عمر اپنے غلام کے ساتھ سفر پر تھے اور یہ طے تھا کہ ایک دفعہ تم سواری پر بیٹھنا، ایک دفعہ میں، اور جب لوگ دیکھنے آئے تو آپ نے سوار ی کی مُہار پکڑی ہوئی تھی اور غلام سواری پر تھا وہ لوگ کہنے لگے اس قوم کو کبھی کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے علی! اگر تیرے توسط سے کوئی ایک آدمی ہدایت پاجائے تو تیرے لیے سو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘ (بخاری: ۲۹۴۲) جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کا عقیدۂ آخرت کمزور ہوتا جارہا ہے اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔ امام غزالی نے کہا تھا کہ سب سے مشکل علم آخرت کا علم ہے۔