وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنا دیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے اور اگر تیرا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔ پس چھوڑ انھیں اور جو وہ جھوٹ گھڑتے ہیں۔
شیاطین انسانوں سے کیا مراد ہے: وہ افراد جو حق کی دشمنی کے لیے، دین کو نیچا دکھانے کے لیے قائدین کا رول ادا کرتے ہیں۔ دو گروہ (۱) جن۔ (۲) انسان، ان میں قدر مشترک شیطان، سرکش، گمراہ اور اللہ کا دشمن ہونا ہے۔ یہ سب شیطانی قوتیں انبیاء کے مقابلہ میں ڈٹ کھڑی ہوتی ہیں، اور یہ حق کے مقابلہ میں باطل سیدھے راستے کے مقابلے میں ٹیڑھا راستہ، دھوکا دینا، فریب دینا اور کئی خوش آئند تدابیر پیش کرتے ہیں جو بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہیں مگر اصل میں وہ مکر و فریب ہوتا ہے جیسے (۱)یہودیوں نے ایک تدبیر یہ کی تھی کہ کچھ یہود ایمان لے آئیں پھر تھوڑے عرصہ بعد مرتد ہوجائیں۔ معاشرہ ہمارے اس فعل سے یہ اثر لے گا کہ یقینا دال میں کچھ کالا ہے، ورنہ یہودی تو عالم لوگ ہیں۔ اگر اسلام سچا مذہب ہوتا تو یہ حق سے کیسے انحراف کرسکتے تھے۔ (۲) مشرک کہتے تھے کہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمان اللہ کے مارے ہوئے (مردار) کو حرام سمجھتے ہیں اور اپنے مارے ہوئے (ذبح کردہ) کو حلال قرار دیتے ہیں۔ ایسی مکر و فریب والی تدابیر شیاطین اس لیے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں اور یہ بات مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خوب تعاون کرتے ہیں جس کی وجہ سے بُرائی بہت جلد فروغ پاتی ہے۔ رب چاہتا تو وہ ایسا کام نہ کرتے: یعنی اللہ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے لیکن وہ بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔