سورة الانعام - آیت 104

قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلا شبہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے کئی نشانیاں آچکیں، پھر جس نے دیکھ لیا تو اس کی جان کے لیے ہے اور جو اندھا رہا تو اسی پر ہے اور میں تم پر کوئی محافظ نہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بصیرت افروز دلائل سے مراد: جو علم اللہ کی طرف سے آیا ہے یعنی اللہ کا کلام، دلائل، حجتیں جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔ اگر کوئی شخص ان پر غوروفکر کرے گا تو یقینا حقیقت کو پالے گا اور اس میں اسی کا بھلا ہے۔ اور جو خود ہی کچھ سمجھنا نہیں چاہتا تو وہ خود ہی اس کا نقصان برداشت کرے گا، قرآن کریم آنکھوں سے پردے ہٹا دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾ (بنی اسرائیل: ۱۵) ’’جو کوئی راہ راست اختیار کرے اسکی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو گمراہ ہو اسکی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا، اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں کہ جب تک لوگوں کو (حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغمبر نہ بھیج دیں۔‘‘ یعنی جب اللہ نے قرآن دے دیا، حکمت، ہدایت دے دی پھر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا تو اللہ ان پر نگران نہیں ہے۔