لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
اسے نگاہیں نہیں پاتیں اور وہ سب نگاہوں کو پاتا ہے اور وہی نہایت باریک بین، سب خبر رکھنے والا ہے۔
نگاہیں اس کو پانھیں سکتیں: انسان خدا کے نور کا احاطہ نہیں کرسکتا، ایک فانی وجود غیر فانی کا ادراک کرسکے یہ ممکن نہیں، انسان کو جان لینا چاہیے کہ رب معمولی چیز نہیں کہ انسان اپنی آنکھوں سے دنیا میں اس کو دیکھ سکے۔ البتہ قیامت کو اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الٰہی سے مشرف ہونگے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کو دلیل بنا کر فرماتی ہیں کہ جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (شب معراج) میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا، کیونکہ اللہ فرماتا ہے (لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ) اس آیت کی رو سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں۔ (بخاری: ۴۸۵۵) البتہ آخرت میں یہ دیدار ممکن ہوگا۔ سورۃ القیامہ میں ارشاد ہے اس دن کئی چہرے تروتازہ ہونگے۔ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔‘‘ اللہ لطیف بھی ہے باریک بین بھی اور خبیر بھی۔ اللہ نے انسان کو بصیرت دی ہے جس سے وہ رب کو پالیتا ہے اس کی نشانیوں سے ابوہریرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا قیامت کے روز ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے، فرمایا کیا چودھویں رات میں چاند دیکھنے میں دقت ہوتی ہے اور جب بادل ہوں تو سورج کو دیکھنے میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ’’کہا نہیں۔‘‘ فرمایا: قیامت کے دن اسی طرح اللہ کو دیکھو گے۔ (مسلم: ۱۸۲)