وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور میں اس سے کیسے ڈروں جسے تم نے شریک بنایا ہے، حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ بے شک تم نے اللہ کے ساتھ اس کو شریک بنایا ہے جس کی کوئی دلیل اس نے تم پر نہیں اتاری، تو دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے، اگر تم جانتے ہو۔
ابراہیم نے کہا کہ جن بتوں کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ میں ان سے کیوں ڈروں جب کہ تم اللہ سے جسکی پوری کائنات پر حکمرانی ہے نہیں ڈرتے۔ بت بے جان پتھر نہ تمہارا کچھ بگاڑ اور سنوار سکتے ہیں نہ میرا، میں تو علم حقیقی کی بناپر کہہ رہا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے تمہارا ان بتوں کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھنا تمہار ا اپنا وہم و قیاس ہے جس کے لیے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں۔ لہٰذا تم خود ہی سوچ لو کہ اللہ کی طرف سے عذاب کا مستحق کون ہوگا اور امن و سلامتی کا کون؟ شعر اقبال: وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزاروں سجدوں سے دیتا ہے تجھ کو نجات ایک شخص ابوطالب کے پاس آیا اور کہا کہ ’’تیرا بھتیجا ہمارے بتوں اور ہمارے آباؤ اجداد کو بُرا بھلا کہتا ہے اب ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ اسے کہیں کہ وہ ہمارے دین کو بُرا نہ کہے وہ جو چاہتا ہے ہم اُسے دینے کو تیار ہیں آپ نے فرمایا ’’خدا کی قسم اگر میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں تو حق کہنے سے نہ رکوں گا۔‘‘ (ابن ہشام: ۲/ ۱۰۱، البدایۃ والنہایۃ: ۳/ ۵۶)