قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ
کہہ دے وہی اس پر قادر ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے عذاب بھیج دے، یا تمھارے پاؤں کے نیچے سے، یا تمھیں مختلف گروہ بنا کر گتھم گتھا کر دے اور تمھارے بعض کو بعض کی لڑائی (کا مزہ) چکھائے، دیکھ ہم کیسے آیات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں، تاکہ وہ سمجھیں۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ میں تیرے چہرے کی پناہ چاہتا ہوں۔ عذاب کی قسمیں: اس آیت میں تین قسمیں ذکر کی ہیں۔ (۱) عذاب سماوی جیسے طوفان بادوباراں کڑک، بجلی کا گرنا، تیز آندھی، پتھروں کی بارش وغیرہ۔ (۲)عذاب ارضی جیسے سیلاب، زلزلے اور زمین میں دھنس جانا۔ (۳) فرقہ بازی، خواہ یہ مذہبی ہو یا سیاسی یا قبائلی، یہ تینوں قسم کے عذاب اگلی اُمتوں پر آتے رہے۔ اللہ کی ناراضگی: کا سبب قوموں کے گناہ ہوتے ہیں۔ غورکرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو پانی میں ڈبو دیا، قوم عاد کو تندوتیز ہوا سے کٹی فصل کی طرح تباہ کردیا، قوم عاد، قوم ثمود بھی اسی طرح عذاب کی مستحق ٹھہریں۔ رسول اللہ نے ان سب قسم کے عذابوں سے پناہ مانگی اور دعا کی کہ میری اُمت پر ایسے عذاب نہ آئیں۔ پہلی دو قسم کے عذابوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوگئی مگر تیسری قبول نہیں ہوئی۔ اللہ کی طرف سے قوم کے لیے اس کے عمل سے پہلے کوئی فیصلہ نہیں ہوتا جب معاشرے میں بے حیائی عام ہوجائے۔ زندگی سے محبت موت سے نفرت ہو، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام رک جائے تو اللہ دعائیں قبول نہیں کرتا اور اللہ کا عذاب آتا ہے۔ گناہ ظلم اور زیادتی کے کاموں سے عذاب آتا ہے ۔