سورة الانعام - آیت 58

قُل لَّوْ أَنَّ عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے اگر واقعی میرے پاس وہ چیز ہوتی جو تم جلدی مانگ رہے ہو تو میرے درمیان اور تمھارے درمیان معاملے کا ضرور فیصلہ کردیا جاتا اور اللہ ظالموں کو زیادہ جاننے والا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اگر ایسا عذاب لانا میرے اختیار میں ہوتا تو کب کا آچکا ہوتا اور سارے جھگڑے ختم ہوچکے ہوتے مگر فیصلے کا اختیار تو اللہ کا ہے ۔ انسان کی برداشت محدود ہے اس لیے وہ فیصلے میں جلدی کرچکا ہوتا، اللہ کے اندر حلم اور بُردباری ہے اس لیے انکار کرنے والوں کو مہلت دیتا ہے اللہ انتقام لینے کی قدرت کے باوجود درگزر کرتا ہے رزق دیتا ہے خوشیاں بھی دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ (الانفال: ۳۲) ’’اگر یہ واقعی حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، ہم پر عذاب لا‘‘ یہ ابو جہل کی دعا تھی۔ اللہ ظالموں کو جانتا ہے عذاب سے دوچار کرنے والا ہے نافرمانیوں کو دیکھتا ہے پھر بھی مہلت دیتا ہے۔