قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۚ قُل لَّا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ
کہہ دے بے شک مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کہہ دے میں تمھاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چلتا، یقیناً میں اس وقت گمراہ ہوگیا اور میں ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہوں۔
اس آیت میں ارشاد ہے کہ آپ ان کفار سے کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی کی پیروی نہ کروں اگر میں پیروی کرونگا تو میں گمراہ ہوجاؤنگا اور ہدایت پانے والوں میں نہ رہوں گا۔ انسان کے اندر فطری طور پر عبودیت کا جذبہ موجود ہے جب انسان یہ جذبہ کسی اور کی طرف لگا دیتا ہے تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ مجرموں کی خواہش کیا تھی؟ مشرکین یا مجرمین چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے معبودوں یا دیوی دیوتاؤں کی توہین نہ کریں، ہم انھیں کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ کی تعلیم سے نہ صرف ان کے بتوں کی توہین ہوتی تھی بلکہ ان کے آباء و اجداد کی بھی ہوتی تھی۔ اس لیے وہ بہت سٹپٹاتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان سے کہہ دو کہ نہ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کرسکتا ہوں اور نہ دیوی دیوتاؤں کی تعظیم کرسکتا ہوں مجھے تو مامور ہی اسی کام پر کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کا رشتہ ان بتوں سے توڑ کر اللہ سے جوڑ دوں اگر میں نے وحی الٰہی کے خلاف کیا تو میں خود بھی ہدیات پانیوالوں میں سے نہ رہونگا۔