وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر تجھ پر ان کا منہ پھیرنا بھاری گزرا ہے تو اگر تو کرسکے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالے، پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے آئے (تو لے آ) اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً انھیں ہدایت پر جمع کردیتا۔ پس تو جاہلوں میں سے ہرگز نہ ہو۔
پہلی بات رسول معجزے دکھانے نہیں آتے اللہ کا کلام پہنچانے آتے ہیں۔ اللہ کی مشیت: رسول اللہ کو تبلیغ کرتے اور کفار کی سختیاں سہتے ایک طویل مدت گزر گئی اور کافروں کی اکثریت انکار ہی کرتی رہی تو آپ کو سخت گھٹن محسوس ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ انھیں کوئی حسی معجزہ دکھلادے تو اُمید ہے یہ ایمان لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ کی تقدیر اور مشیت سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ انھیں قبول اسلام پر آمادہ نہیں کرسکتے حتیٰ کہ آپ اگر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشان ان کو لاکر دکھا دیں تو اوّل تو آپ کے لیے ایسا کرنامحال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا، اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کرسکتے۔ البتہ ایک ظاہر حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ۔ ورنہ اللہ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اور اس کے لیے لفظ ((کُنْ)) سے پلک جھپکتے یہ کام ہوجانا تھا۔ امتحان کے لیے آزاد ماحول ہونا ضروری ہے: ہدایت مجبوری کا سودا نہیں، اللہ تعالیٰ جبراً ہدایت پر جمع کرنا نہیں چاہتے۔ اللہ نے حق کو انبیاء کے حوالے سے تعارف کرایا۔ سزا و جزا کا دن رکھا، امتحان قائم کیا تاکہ اپنی مرضی سے کلام کو مانیں، معجزات دکھانا نبی کے اختیار میں نہیں۔ اس لیے آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں۔ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے۔ اس لیے اس کو اللہ ہی کے سپرد کردیں وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔