قُل لِّمَن مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُل لِّلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
کہہ کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے؟ کہہ اللہ کا ہے، اس نے اپنے آپ پر رحم کرنا لکھ دیا ہے، یقیناً وہ تمھیں قیامت کے دن کی طرف (لے جا کر) ضرور جمع کرے گا، جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا، سو وہی ایمان نہیں لاتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو عرش پر یہ لكھ دیا (رحمتی تغلب غضبی) یقیناً میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘ (بخاری: ۷۴۰۴) لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لیے ہوگی، کافروں کے لیے رب تعالیٰ سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقیناً عام ہے۔ جس سے مومن اور کافر، نیک و بد، فرمانبردار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ کسی کی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اسکی یہ رحمت صرف دنیا تک ہی ہے آخرت میں جو کہ دارالجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا جس کے نتیجے میں اہل ایمان امانِ رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ (الاعراف: ۱۵۶) ’’اور میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھونگا جو اللہ سے ڈرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘