سورة الانعام - آیت 1

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آغاز اللہ کی تعریف اللہ کے شکر کے ساتھ ہے: رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ پورے میزان کو بھردیتا ہے۔ (نسائی: ۲۴۳۷، ترمذی: ۳۵۱۹) دلائل توحید: یہ خطاب مشرکین مکہ کو ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ہر چیز کا خالق و مالک تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اسی نے کائنات، سورج، چاند بنائے۔ رات اور دن پیدا کیے۔ ان سب پر حکمرانی اسی کی ہے۔ اسی کے حکم کے تحت یہ گردش کررہے ہیں اور ہمیں بھی اسی نے پیدا کیا ہے۔ پہلی دلیل: اللہ تعالیٰ انھیں مخاطب کرکے فرمارہے ہیں کہ وہ ذات جو اتنی بڑی کائنات کو حسن و خوبی سے چلارہی ہے کیا وہ تمہاری ضروریات، تمہاری مشکلات کو حل نہیں کرسکتی، کہ تم لات، عزیٰ، منات اور ہبل جیسے معبودوں کو پکارتے ہو جن کا اس بھری کائنات میں کوئی عمل و دخل نہیں ہے۔ انسان کو چاہیے تو یہ تھا اسی خالق کے آگے سجدہ ریز ہوتا۔ اسی سے دعائیں مانگتا، جس نے اسے پیدا کیا ۔ زمین کو پیدا کیا۔ زمین سے تمام ضروریات زندگی فراہم کیں۔ جو حق اللہ کا ہے وہ ان دیوی دیوتاؤں کو دیتے ہو۔ اندھیرے اور روشنی سے مراد: ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ اندھیرے بہت سے ہیں لیکن روشنی ایک ہی نور کی ہے۔ ’’ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ‘‘ زمین کو اپنی طرف سے سورج سے روشنی عطا کی۔ اسی طرح انسانی قلب جو اندھیرے میں ہوتا ہے اللہ نے وحی کے علم سے اس کے دل کو روشن کیا۔ اصل عقیدہ اللہ کی ذات ایک ہے باقی سب عقیدے اندھیرا ہیں۔ جن لوگوں نے کفر کیا: روشنی کے ساتھ اندھیروں کو ملادیتے ہیں شرک کرتے ہیں غوروفکر نہیں کرتے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ: ہر قسم کا شکر اور خدائی اس ذات کے لیے ہے جس نے تمام آسمانوں کو دو دنوں میں، اتوار اور پیر کو اور زمین کو دو دنوں، منگل اور بدھ کو پیدا کیا، اور کفر اور ایمان یعنی رات اور دن کو پیدا کیا اس کے باوجود یہ کفار بتوں کو عبادت میں اللہ کا درجہ دیتے ہیں۔ (الاحادیث المختارہ: ۴/۱۹۳)