وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
اور جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے بنتا ہی نہیں کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر میں نے یہ بات کہی تھی تو یقیناً تو نے اسے جان لیا، تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے، یقیناً تو ہی سب چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
پوری عیسائیت کی کہانی کا جواب اس ایک آیت میں ہے یہ رب کا آسمانی کلام ہے جزا و سزا کے معاملات طے ہورہے ہیں۔ یہ سوال قیامت کے دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے احسانات یاد دلانے کے بعد یہ پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کی بجائے مجھے اور میری ماں کو الٰہ بنا لینا اور اپنی تمام حاجات ہم سے طلب کرنا، کیا میرے احسانات کا یہی بدلہ تھا۔ حضرت عیسیٰ نہایت عاجزی سے جواب دیں گے کہ میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جو مجھے سزا وار ہی نہ تھی اور تو تو چھپی، علانیہ سب باتوں کو جانتا ہے اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو یقیناً تیرے علم میں ہوتی۔یہ مکالمہ دراصل حضرت عیسیٰ کے ان پیروکاروں کی سرزنش کے لیے بیان کیاجارہا ہے جنھوں نے آپ کے بعد آپ کو اور آپ کی والدہ کو الٰہ بنا لیا تھا تاکہ ان کے خلاف ان کے رسول کی شہادت قائم ہوجائے۔ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا: حضرت عیسیٰ کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرمارہے ہیں کہ تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے۔ اللہ عظیم ہے اور بندہ حقیر ہے چاہے وہ نبی ہو۔