وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقیناً جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
یہودی حرام خور بھی تھے اور سود خور بھی، اور سود خوری کی تاثیر یہ ہے کہ وہ انسا ن میں خود غرضی اور بُخل پیدا کرتا ہے اور جب انھیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو کہا جاتا ہے تو طرح طرح کی بکواس شروع کردیتے ہیں اسی بات کو سورۃ آل عمران ۱۸۱میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اسے اللہ کو قرض حسنہ دینے سے تعبیر کیا، تو ان یہودیوں نے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے ‘‘ اور وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سب کچھ تو اللہ کا دیا ہوا ہے اور اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کردینا کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے حتیٰ کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو تک بڑھا دیتا ہے اور اسے قرض حسنہ سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے اللہ اس سے کئی گناتمہیں واپس لوٹائے گا۔ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں: یہود کا مقصدیہ نہیں کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں بلکہ ان کا مقصدیہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں، جب یہود کی بدکرداریوں کی وجہ سے ان پر اللہ کی نوازشات بند ہوگئیں تو کہنے لگے کہ اب اللہ بخیل بن گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لیے تمام حاجات و ضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے ہمیں رات یا دن کو، سفر میں اور حضر میں دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑسکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ سورۂ ابراہیم آیت ۳۴ میں فرمایا کہ تم نے جو کچھ اس سے مانگا، وہ اس نے تمہیں دیا، اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے، انسان ہی نادان اور نہایت ناشکرا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی۔‘‘ (بخاری: مسند احمد: ۲/۳۱۳، ح: ۸۱۶۰) قرآن سے گمراہ کون ہوتے ہیں: منافقین اور یہود کی قلبی اور اخلاقی حالت اس قدر پست ہوچکی ہے کہ قرآن کی نصیحت آموز باتیں انھیں راس نہیں آتیں بلکہ ان کے کفر اور سرکشی میں مزید اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔ جب یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں: اس کی واضح مثال یہ ہے کہ یہود نے کرائے کے آدمی کے ذریعے اوس اور خزرج کے لوگوں کو جنگ بعاث میں پڑھے گئے اشعار سناکر ان میں جوش انتقام کو بھڑکایا، قریب تھا کہ لڑائی شروع ہوجاتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پتہ چل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً موقعہ پر پہنچ گئے اور فرمایا ’’میری موجودگی میں ایسی جاہلیت کی باتیں‘‘ اس پر انصار کو فوراً احساس ہوگیا اور وہ آپس میں گلے مل کر رونے گلے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لگائی ہوئی آگ کو فوراً بجھا دیتا ہے یعنی وہ جوکچھ سوچتے ہیں یا کہتے ہیں یا کرتے ہیں سب کچھ فتنہ و فساد برپا کرنے کی غرض سے کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔