وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے، کہتے ہیں کیا یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنی پختہ قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی تھی کہ بلاشبہ وہ یقیناً تمھارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال ضائع ہوگئے، پس وہ خسارہ اٹھانے والے ہوگئے۔
جب مسلمانوں کو ان کے منافق ہونے کا شک ہونے لگتا ہے تو اللہ کی قسمیں کھا کھا کر ان کو یقین دلانے اور مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور یہود سے تو ہم محض رسمی مروت کے طور پر ملتے ہیں۔ ان منافقوں کا دستور یہ تھا کہ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کو دغا دیتے، فتح مکہ کے بعد تمام عرب قبائل کو معلوم ہوگیا کہ اب اسلام ہی غالب قوت بن کر اُبھر چکا ہے جس سے منافقوں کی تمام آرزوؤں اور اُمیدوں پر اوس پڑ گئی۔ اور دنیا میں انکا حشر یہ ہوا کہ یہ ناقابل اعتماد ٹھہرے اور جو نماز روزہ وہ دکھاوے کے طور پر ادا کرتے تھے وہ بھی سب ضائع ہوگئے اور آخرت میں مسلمانوں کے ساتھ غداری کرنے کے عوض انھیں دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں عذاب دیا جائے گا۔