وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو کتابوں میں سے اس سے پہلے ہے اور اس پر محافظ ہے۔ پس ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر، اس سے ہٹ کر جو حق میں سے تیرے پاس آیا ہے۔ تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنا دیتا اور لیکن تاکہ وہ تمھیں اس میں آزمائے جو اس نے تمھیں دیا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
قرآن سابقہ کتابوں پر نگہبان یا محافظ کیسے ہے۔ ’’ مُھَیْمُنٌ‘‘ کے معنی ہیں محافظ و نگران، ایسی نگرانی جیسے مرغی اپنے سب بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ لیتی ہے تاکہ کوئی پرندہ مثلاً چیل، کواوغیرہ ان پر حملہ آور نہ ہوسکے یا وہ اپنے بچوں کو سردی سے بچا سکے۔ قرآن پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ محافظ، امین، شاہد اور حاکم بھی ہے چونکہ پہلی کتابوں میں تحریف و تغییر بھی ہوئی ہے، قرآن ان سب کتابوں کے لیے ایک کسوٹی کے معیار کا کام دیتا ہے۔ (۱)انجیل اور تورات میں جو مضمون قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا اللہ ہی کا کلام ہوگا۔ (۲) جو قرآن کے خلاف ہوگا وہ ہرگز اللہ کا کلام نہیں ہوگا۔ (۳) اور جو مضمون قرآن کے نہ مطابق ہو نہ مخالف اس کے متعلق مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ نہ اس کی تصدیق کریں اور نہ تکذیب۔ آیت نمبر ۴۲ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں آپ کی مرضی ہے لیکن اب اس جگہ یہ حکم دیا جارہا ہے کہ ان کے آپس کے معاملات کے فیصلے بھی قرآن کے مطابق فرمائیں۔ دراصل یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آراء یا ان کے خودساختہ عقائد و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے۔ جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ ہر ایک کے لیے ایک دستور ایک ہی راہ مقرر ہے: اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں یعنی سب انبیاء کا دین تو ایک ہی تھا مگر شریعتیں الگ الگ تھیں، ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام اور دوسری میں حلال تھیں، (جیسے گائے کی چربی اور ناخن والے جانور کہ یہود پر حرام تھے جبکہ نصاریٰ پر حلال تھے۔) تمام اُمتوں کو نماز، زکوٰۃ اور روزوں کا حکم تھا۔ مگر نمازوں کی تعداد اور ترکیب نماز میں فرق تھا۔ نصاب زکوٰۃ اور شرح زکوٰۃ میں فرق تھا، روزوں کی تعداد میں بھی فرق تھا۔ یا آدم کی اولاد میں بہن بھائی کا نکاح جائز تھا، بعد میں حرام ہوگیا، ایسے بیشمار مسائل زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتے ہیں۔ دنیا میں امتحان: اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی اُمت بنا دیتا اللہ کا انسان کو پیدا کرنا، اسے دنیا میں بھیجنا، دنیا کو دارالعمل اور دارالابتلا بنانا۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت تمیز، قوت ارادہ اور اختیاری قوت دیکر آزمائش میں ڈالا ہے کہ کون اسکے احکامات اور اسکے رسولوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ اب انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر احکام الٰہی سے انحراف نہ کرے۔ بلکہ اپنے آپ کو احکام الٰہی کے تابع رکھتے ہوئے نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ نزول قرآن کے بعد: اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے لیکن اس راہ ِ نجات کو اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح آزمائش ممکن نہ ہوتی اور وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے ۔قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو فیصلہ کردے گا کہ جن جھگڑوں میں یعنی (فرقہ پرستی) میں پڑ کر اپنی عمر یں ضائع کردیں، ان میں حق کا پہلو کتنا تھا اور باطل کا کتنا۔