وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ
اور ہم نے ان کے پیچھے ان کے قدموں کے نشانوں پر عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا، جو اس سے پہلے تورات کی تصدیق کرنے والا تھا اور ہم نے اسے انجیل دی جس میں ہدایت اور روشنی تھی اور اس کی تصدیق کرنے والی جو اس سے پہلے تورات تھی اور متقی لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔
پہلے انبیاء کے فوراً بعد ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجا، جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب کی تصدیق کرنے والے تھے۔ جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ بھی اللہ کے سچے رسول ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ مسلسل ہدایت مل رہی ہے پہلے تورات اپنے وقت کے لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھی، انجیل کے نزول کے بعد یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کے نزول کے بعد تورات، انجیل اور دیگر صحائف اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرمایا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح و کامیابی اب اسی قرآن سے وابستہ ہے جو اس سے جُڑ گیا سرخرو رہے گا، جو کٹ گیا ناکامی و نامرادی اس کا مقدر ہے۔ ہدایت ہمیشہ کتابوں کے ذریعے سے ملتی ہے۔ پہلی کتابوں میں راہنمائی تھی شریعت نہیں تھی۔ 1300برس بعد رسول اللہ کے ذریعے سے شریعت ملی۔ انبیاء علاتی بھائی ہیں: ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں سب لوگوں سے زیادہ عیسیٰ ابن مریم سے (دنیا و آخرت) میں تعلق رکھتا ہوں انبیاء سب علاتی بھائی ہیں۔ جن کا باپ (یعنی عقائد) اور مائیں (فروعی مسائل) جدا ہیں میرے اور عیسیٰ کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ (بخاری: ۳۴۴۳) حضرت عیسیٰ کے 610برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اللہ سے ڈرنے والے: اعلیٰ کردار کے حامل لوگوں کو راہنمائی ملتی ہے۔ جو لوگ اپنی غفلت سے نکل آتے ہیں۔ زندگی کے مقصد کو سمجھ لیتے ہیں۔ راہنمائی اللہ سے ڈرنے والوں کو بلندی پر لے جانے والوں کو ملتی ہے۔ جو اسی زندگی میں گم نہیں ہوتے۔ اللہ کا خوف خود نہیں آتا کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اور جب اللہ کا خوف دل میں آجاتا ہے پھر سارے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ کلام اللہ کو مسلسل پڑھنے سے، غوروفکر کرنے سے اللہ کا ڈر ملتا ہے۔