سورة المآئدہ - آیت 33

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ۔ جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کریں: شان نزول۔ ابن جریر ابن ابی الدنیا سے روایت کرتے ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ کے پاس گئے، اس آیت کریمہ کے بارے میں دریافت کیا، انھوں نے فرمایا کہ یہ آیت اصحاب عرینہ قبیلے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ مرتد ہوگئے تھے۔ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کردیا تھا،اور انکے اونٹوں کو ہانک کر لے گئے تھے‘‘ (طبری: ۱۰/۲۴۳) ابن جریر نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ شریعت کے خلاف بغاوت کو محاربہ کہتے ہیں اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے ہوئے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، ناحق قتل کرنا، اغوا اور آبرو ریزی کرنا وغیرہ محاربہ اور بغاوت ہے۔ ان کو چار قسم کی سزائیں دی جاسکتی ہیں، (۱) اگر مجرم نے قتل کردیا، مگر مال لوٹنے کی نوبت نہ آئی تو اسے قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ (۲) اگر قتل بھی کردیا اور مال بھی لوٹا تو اسے سولی پر چڑھایا جائے گا۔ (۳) اگر صرف مال ہی چھیننا ہو قتل نہ کیا ہو تو اسکے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹے جائیں گے۔ (۴) اگر قتل کرنے اور مال لوٹنے سے پہلے گرفتار ہوجائے تو اسے جلا وطن کیا جائے گا۔ عکل و عرینہ قبیلے کا قصہ کیا تھا: حضرت انس فرماتے ہیں کہ عکل و عرینہ کے کچھ لوگ آپکے پاس آئے، اور اسلام کا کلمہ پڑھنے لگے، انھوں نے کہا یارسول اللہ! ہم گوجر لوگ ہیں کسان نہیں انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کیا اور کہا کہ تم لوگ (جنگل) چلے جاؤ۔ اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہو وہ حرہ کے پاس اقامت پذیر ہوئے اور اس علاج سے وہ خوب موٹے تازے ہوگئے، پھر ان کی نیت میں فتور آگیا، اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے یسار کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر، اسے کئی طرح کی تکلیفیں پہنچا کر مار ڈالا اور اونٹ بھگا کر چلتے بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ نے انھیں گرفتار کرنے کے لیے آدمی روانہ کیے، جب وہ گرفتار ہوکر آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور ان کو حرہ کے ایک کونے میں پھینک دیا گیا اور وہ اسی حال میں مرگئے۔‘‘ وہ پانی مانگتے تھے لیکن کوئی پانی نہ دیتا تھا۔ ابو قلابہ کہتے ہیں کہ یہ اس لیے کہ انھوں نے چوری کی، خون کیا، ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور اللہ اور اس کے رسول سے محاربہ کیا۔ (بخاری: ۳۰۱۸) اما م شوکانی فرماتے ہیں کہ امام (خلیفہ وقت) کے اختیار میں ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔