قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ
انھوں نے کہا اے موسیٰ ! بے شک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور بے شک ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، پس اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہونے والے ہیں۔
بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جب تک ہم ان لوگوں کے حالات سے پوری طرح واقف نہ ہوجائیں تب تک جنگ نہیں کریں گے، چنانچہ موسیٰ نے بارہ آدمیوں کو فلسطین کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا اور انھیں تاکید کی کہ حالات جیسے بھی ہوں آکر صرف مجھے بتانا ہرکس و ناکس کے سامنے ان کی تشہیر نہ کرنا لیکن ان لوگوں نے حکم کی خلاف ورزی کی اور سب کو بتا دیا کہ وہاں کے معاشی حالات اچھے ہیں مگر وہ بہت طاقتور لوگ ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ بنی اسرائیل ان کی بہادری کی شہرت سن کر پہلے ہی مرحلے میں ہمت ہار گئے، جہاد سے دست بردار ہوگئے اللہ کے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم کی کوئی پرواہ نہ کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین کیا، اور وہاں جانے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تب ہم اس میں داخل ہوں گے۔