وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ۖ بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
اور یہود و نصاریٰ نے کہا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، کہہ دے پھر وہ تمھیں تمھارے گناہوں کی وجہ سے سزا کیوں دیتا ہے، بلکہ تم اس (مخلوق) میں سے ایک بشر ہو جو اس نے پیدا کی ہے، وہ جسے چاہتا ہے بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن اللہ کہا اور اپنے آپ کو بھی ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) اور اس کا محبوب قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکبر کا بے بنیاد ہونا واضح کردیا کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور چہیتے ہوتے تو پھر اللہ تمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں سزا کیوں دیتا رہا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں فیصلہ دعوؤں کی بنیاد پرنہیں ہوتا، نہ قیامت والے دن ہوگا، بلکہ وہ تو ایمان، تقویٰ اور عمل دیکھتا ہے ۔ اور دنیا میں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتا ہے اور آخرت میں بھی اسی اصول پر فیصلہ ہوگا قیامت کے دن فیصلہ اللہ کی اسی سنت کے مطابق ہوگا کہ اہل ایمان کے لیے مغفر ت اور اہل کفر و فسق کے لیے عذاب، اور اے اہل کتاب تم بھی اسی کی پیدا کردہ مخلوق یعنی انسان ہو، تمہارے لیے فیصلہ دیگر انسانی مخلوق سے مختلف کیونکر ہوگا۔ اللہ بادشاہ ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’میں ہی زمین و آسمان کا مالک ہوں تم سارے میرے غلام ہو۔‘‘ قیامت کے دن حسب و نسب کچھ کام نہ آئے گا۔ سیّدنا ابوہریرہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا اس کا نسب اُسے آگے نہ کرسکے گا۔‘‘(مسلم) جب سورہ الشعرا کی آیت (وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ) نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور ان کے نام لیکر کہا مثلاً اے عباس بن عبدالمطلب میں تیرے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے صفیہ (رسول اللہ کی پھوپھی) میں آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا ۔ اے فاطمہ بنت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے مال میں سے جو تم چاہو مجھ سے دنیا میں طلب کرلو۔ میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ (بخاری: ۴۷۷۱، مسلم: ۲۰۶)