وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی اس پتھر پر مار، تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، بلاشبہ سب لوگوں نے اپنی پینے کی جگہ معلوم کرلی، کھاؤ اور پیو اللہ کے دیے ہوئے میں سے اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
یہ واقعہ بھی اسی وادی سینا میں پیش آیا۔ اس وادی میں نہ تو کوئی سایہ تھا اور نہ ہی کہیں پانی تھا قوم موسیٰ نے آپ سے پانی کی شکایت کی اور کہا کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ ہمیں پانی عطا کرے، چنانچہ حضرت موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ اپنا عصا فلاں چٹان پر مارو۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایساہی کیا تو وہاں سےبارہ چشمے پھوٹ پڑے كیونكہ قوم موسیٰ کے بارہ قبیلے تھے اور ہر ایک کو الگ الگ مقام پانی پینے کے لیے مل گیا یہ چٹان اب بھی جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے اور سیاح جاکر اسے دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگافوں کے نشان بھی اس میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ فساد فی الارض: اس میں چوری، ڈاکہ، قتل و غارت اور ایک دوسرے کے حقوق غضب کرنا كہ یہ فساد فی الارض كا ایك پہلو ہے۔ مدینہ کے مسلمانوں نے جب منافقوں سے کہا تھا کہ زمین میں فساد نہ کرو تو انھوں نے کہا کہ ہم مفسد نہیں بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں اسی طرح جب حضرت موسیٰ نے فرعون کو دعوت توحید دی تو اسکے درباریوں نے کہا ’’کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو ایسے ہی چھوڑدے گا کہ وہ زمین میں فساد مچاتے پھریں اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں‘‘۔ تو فرعون نے اس قسم كے فساد فی الارض كی اصطلاح كا طریقہ سوچ كر كہا ’’كہ ہم لوگ ان كے بیٹوں كو قتل كریں گے اور بیٹیوں كوزندہ ركھیں گے۔‘‘ ان مثالوں سے قرآن کریم میں مذكور فساد فی الارض کا مفہوم بھی بخوبی سمجھ آجاتا ہے۔