وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا
اور بہت سے رسولوں کی طرف جنھیں ہم اس سے پہلے تجھ سے بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسولوں کی طرف جنھیں ہم نے تجھ سے بیان نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔
دوسرے انبیاء علیہم السلام پر تو وحی اس طرح آتی تھی کہ ایک آواز آرہی ہے یا فرشتہ پیغام سنارہا ہے اور وہ سن رہے ہیں، لیکن سیدنا موسیٰ کی نبوت و رسالت کا آغاز ہی ایسی وحی سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ موسیٰ سے ہمکلام ہوئے تھے اور یہ آواز ایک درخت کے پیچھے سے آرہی تھی، پھر اس کے بعد بھی کوہ طور پر ہمکلامی نصیب ہوئی، بندے اور خدا کے درمیان اس طرح باتیں ہوتی تھیں جیسے دو شخص آپس میں بات کرتے ہیں مثال کے طور پر سورہ طہٰ (15-(23 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا ’’میری بندگی کرو۔‘‘ نماز قائم کرو اور کہا کہ میں تمہارا رب ہوں جوتے اتاردو تم اس وقت وادی طویٰ میں ہو، قیامت کا دن آنے والا ہے پھر کہا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے کہا یہ لاٹھی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کو زمین پر پھینک دو، لاٹھی سانپ بن گئی، اللہ نے کہا اس سے ڈرو نہیں اس کو پکڑ لو یہ پھر عصا بن جائے گی، اپنا ہاتھ بغل میں دباؤ بغیر کسی تکلیف کے روشن ہوکر نکلے گا پھر فرمایا ’’فرعون غرق ہونے والا ہے۔‘‘ بائبل میں بھی حضرت موسیٰ کی خصوصیت کا ذکر اسی طرح کیا گیا ہے چنانچہ لکھا ہے ’’جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی خداوند روبرو ہوکر موسیٰ سے باتیں کرتا تھا۔ (خروج ۳۳،۱۱)