إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا
بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔
نماز اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے اور مومن اور کافر میں فرق کرنے کے لیے یہ ایک فوری امتیازی علامت ہے۔ اور منافق اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کیونکہ ان کا دل ایمان خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا، وہ مسجدوں میں آتے ہیں تو محض حاضری لگوانے کے لیے اور نماز بھی وہ ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے پڑھتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں، اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو، تو اطمینان کی نماز بہت گراں گزرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے۔ کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (یعنی غروب کے قریب) ہوجاتا ہے تواٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔‘‘ (مسلم: ۶۲۲، ترمذی: ۱۶۰) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافقوں پر کوئی نماز صبح اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں اور اگر لوگ اس ثواب کو جانتے جوان نمازوں میں ہے تو گھسٹ کر بھی پہنچتے، اور میں نے ارادہ کیا کہ موذن سے کہوں وہ تکبیر کہے اور کسی کو لوگوں کی امامت کا حکم دوں، اور آگ کا شعلہ لیکر ان لوگوں (کے گھروں)کو جلادوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔(بخاری: ۶۵۷)