سورة الاخلاص - آیت 1

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابی بن كعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ مشركوں نے كہا كہ اپنے رب كا ہم سے نسب بیان كرو تو اللہ نے یہ سورت اتار دی كہ آپ انھیں كہہ دیں كہ وہ ’’اكیلا‘‘ ہے۔ اللہ صمد ہے اور صمد وہ جو نہ كسی سے پیدا ہوا ہو اور نہ كوئی اس سے پیدا ہوا ہو۔ اس لیے كہ جو كسی سے پیدا ہوگا وہ ضرور مرے گا اور جو مرے گا اس كا كوئی وارث بھی ہوگا اور نہ اس كا كوئی ’’كُفو‘‘ ہے۔ راوی كہتے ہیں كہ نہ كوئی اس كے مشابہ ہے نہ برابر ہے اور اس كی مثال كوئی چیز نہیں۔ (ترمذی: ۳۳۶۴) ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے كہ صمد وہ ہے جو اپنی سرداری میں، اپنی شرافت میں، اپنی عزت وعظمت میں، اپنے علم وحلم میں، اپنی حكمت و تدبر میں سب سے بڑھا ہوا ہو، یہ صفتیں صرف اللہ جل شانہ میں ہی پائی جاتی ہیں اس كا ہمسر اور اس جیسا كوئی نہیں، وہ اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے اور اپنی ذات وصفات میں یكتا و بے نظیر ہے۔ صمد كے یہ معنی بھی كیے گئے ہیں كہ جو تمام مخلوق كے فنا ہو جانے كے بعد بھی باقی رہے، جو ہمیشہ كی بقا والا، سب كی حفاظت كرنے والا جس كی ذات لازوال اور غیر فانی ہے۔ صمد وہ ہے جو نہ كچھ كھائے نہ اس سے كچھ نكلے یعنی نہ اس كی اولاد ہو نہ ماں باپ۔ حضرت ابی بن كعب رضی اللہ عنہ سے صراحتاً یہ مروی ہے اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی ہے كہ صمد كہتے ہیں ٹھوس چیز كو جو كھوكھلی نہ ہو، جس كا پیٹ نہ ہو۔ شعبی كہتے ہیں جو كھاتا ہو نہ پیتا ہو، عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صمد وہ نور ہے جو روشن ہو اور چمك دمك والا ہو۔ حافظ ابوالقاسم طبرانی رحمہ اللہ اپنی كتاب ’’السنہ‘‘ میں لفظ صمد كی تفسیر میں ان تمام اقوال وغیرہ كو ذکر كر كے لكھتے ہیں كہ دراصل یہ سب سچے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ كی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے كے مترادف ہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بنی آدم نے مجھے جھٹلاتا ہے اور یہ اسے مناسب نہیں ہے اور مجھے گالی دیتا ہے اور یہ اسے مناسب نہیں ہے اس كا مجھے جھٹلانے كا مطلب یہ ہے كہ وہ كہتا ہے كہ اللہ تعالیٰ كی اولاد ہے۔ حالانكہ میں اكیلا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری كوئی اولاد ہے اور نہ میں كسی كی اولاد ہوں اور میرے جوڑ كا تو كوئی دوسرا ہے ہی نہیں اور وہ جو یہ كہتا ہے كہ میں اسے ہرگز دوبارہ پیدا نہ كروں گا تو یہ مجھے گالی دیتا ہے حالانكہ دوبارہ پیدا كرنا پہلی بار پیدا كرنے سے زیادہ مشكل نہیں۔ (بخاری: ۷۳۷۸) سورئہ اخلاص تہائی قرآن كے برابر ہے: چونكہ اس سورت میں توحید كے جملہ پہلوؤں پر مكمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا كہ یہ سورت تہائی قرآن كے برابر ہے۔ قرآن میں بنیادی طور پر تین عقائد پر ہی زور دیا گیا ہے اور وہ ہیں: (۱)توحید۔ (۲)رسالت۔ (۳)آخرت اس سورت میں چونكہ توحید كا جامع بیان ہے اس لیے اسے تہائی قرآن كے برابر قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جمع ہو جاؤ تاكہ میں تمہارے سامنے قرآن كا تیسرا حصہ پڑھوں، ہم جمع ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نكلے اور ’’سورئہ قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھی پھر اندر چلے گئے، ہم ایك دوسرے سے كہنے لگے كہ شاید آسمان سے كوئی خبر آئی ہے جس كے لیے آپ اندر چلے گئے پھر آپ باہر نكلے تو فرمایا، میں نے تم سے كہا تھا كہ تمہارے سامنے تہائی قرآن پڑھوں گا سو یہ سورت تہائی قرآن كے برابر ہے۔ (مسلم: ۱۱۲)