وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ
اور اس کی بیوی (بھی آگ میں داخل ہوگی) جو ایندھن اٹھانے والی ہے۔
ابولہب كی بیوی كا تعارف: نام اروی، كنیت ام جمیل تھی ابوسفیان كی بہن تھی جو ابوجہل كی موت كے بعد رئیس قریش اور سپہ سالار افواج بنا تھا۔ یہ عورت بھی اپنے خاوند سے كسی صورت كم نہ تھی، جنگل سے خاردار جھاڑ جھنكار اٹھا لاتی اور رات كے اندھیرے میں آپ كے گھر كے آگے ڈال دیتی تاكہ جب آپ صبح بیت اللہ كو جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاؤں میں كانٹے چبھ جائیں۔ جب سورئہ لہب نازل ہوئی تو یہ مٹھی بھر كنكریاں لے كر بیت اللہ كو چل كھڑی ہوئی كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كو ہجو كی صورت میں سورئہ لہب كا جواب دے اور كنكریاں مار كر اپنے انتقام كی آگ ٹھنڈی كرے۔ اتفاق كی بات كہ اسے اللہ كے رسول نظر ہی نہ آئے۔ سیدنا ابوبكر رضی اللہ عنہ سے كہنے لگی تمہارا ساتھی كدھر ہے سنا ہے وہ میری ہجو كرتا ہے۔ سیدنا ابوبكر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اس نے تو كوئی ہجو نہیں كی (یعنی اگر ہجو كی ہے تو وہ اللہ نے كی ہے) یہ جواب سن كر وہ واپس چلی گئی۔ ابولہب كی بیوی كی موت؟ جِیدِ كے معنی ہیں لمبی اور خوبصورت گردن جیسے ہرن كی طرح پتلی اور لمبی گردن، اس گردن میں وہ سونے كا ایك ہار پہنتی تھی اور كہتی تھی كہ میں یہ ہار بیچ كر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) كی مخالفت كے كاموں میں لگاؤں گی۔ اللہ كا كرنا كہ جس مونج كی چبھنے والی موٹی رسی سے وہ جھاڑ جھنكار باندھا كرتی تھی وہی اس كی گردن میں اٹك گئی اور ایسی پھنسی كہ بالآخر اس كی موت كا سبب بن گئی۔ عنقریب وہ اور اس كی بیوی بھڑكنے والی آگ میں جائیں گے: یعنی جہنم میں یہ اپنے خاوند كی آگ پر لكڑیاں لا لا كر ڈالے گی تاكہ آگ مزید بھڑكے یہ اللہ كی طرف سے ہوگا یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند كی،ا س كے كفر وعناد میں مددگار تھی آخرت میں بھی اس کو ہونے والے عذاب میں اس كی مددگار ہوگی۔ (ابن كثیر) بعض كہتے ہیں كہ وہ كانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو كر لاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے راستے میں لا كر بچھا دیتی تھی۔ بعض كہتے ہیں كہ یہ اس كی چغل خوری كی عادت كی طرف اشارہ ہے۔ چغل خوری كے لیے یہ عربی محاورہ ہے، یہ كفار قریش كے پاس جا كر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی غیبت كرتی انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی عداوت پر اكساتی تھی۔ (فتح الباری) شان نزول: مشركین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے كہا کہ اپنے رب كے اوصاف بیان كرو، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔ (احمد: ۵/ ۱۳۳، ۱۳۴۔ ترمذی: ۲۶۸۰)