سورة الكافرون - آیت 1

قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے اے کافرو!

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشركین الگ اور موحدین الگ: اس سورت میں مشركین كے عمل سے بیزاری كا اعلان ہے۔ اور خدا كی عبادت كے اخلاص كا حكم ہے، گو یہاں خطاب مكہ كے كفار قریش سے ہے لیكن دراصل روئے زمین كے تمام كافر مراد ہیں۔ شان نزول: اس سورت کا شان نزول یہ ہے كہ ان كافروں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے كہا تھا كہ ایك سال آپ ہمارے معبودوں كی عبادت كریں تو اگلے سال ہم بھی آپ كے خدا كی عبادت كریں گے، اس پر یہ سورت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم كو حكم دیا كہ ان كے دین سے اپنی پوری بیزاری كا اعلان فرما دیں كہ میں تمہارے ان بتوں كو اور جن جن كو تم خدا كا شریك مان رہے ہو ہرگز نہ پوجوں گا، تم بھی میرے معبود برحق وحدہ لا شریك لہٗ كو نہ پوجو گے، پھر دوبارہ یہی فرمایا كہ میں تم جیسی عبادت نہ كروں گا، نہ میں تمہارے پیچھے لگ سكتا ہوں بلكہ میں تو صرف اپنے رب كی عبادت كروں گا اور وہ بھی اس طریقے سے جو اسے پسند ہو، اور جیسے وہ چاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا طریقہ عبادت یہ تھا كہ آپ نماز میں اللہ كے حضور سجدہ ریز ہو جاتے تھے اور اس طریقۂ عبادت سے كافروں كو خاصی چڑ تھی اور اس سے منع بھی كرتے تھے، جیسا كہ سورۂ علق میں ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط سے متعلق كئی واقعات درج كیے جا چكے ہیں اور كافروں كا طریق عبادت یہ تھا كہ وہ گاتے، سیٹیاں بجاتے تالیاں پیٹتے، كعبہ كا ننگے ہو كر طواف كرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھلا ان كا یہ طریقہ عبادت اختیار كر سكتے تھے كہ توحید كا رستہ چھوڑ كر شرك كا راستہ اختیار كرلیتے جیسا كہ تم چاہتے ہو اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لكھی تو تم بھی اس توحید اور عبادت الٰہی سے محروم ہی رہو گے۔ سورئہ یونس (۴۱) میں فرمایا کہ: ﴿وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّيْ عَمَلِيْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ اَنْتُمْ بَرِيْٓـُٔوْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ اگر یہ تجھے جھٹلائیں تو تو كہہ دے كہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ تم میرے اعمال سے الگ ہو اور میں تمہارے كاموں سے بیزار ہوں، سورئہ بقرہ ۱۳۹ میں فرمایا: ﴿وَ لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُم﴾ ’’ہمارے عمل ہمارے ساتھ اور تمہارے عمل تمہارے ساتھ۔‘‘ سورئہ الانعام: ۱۱۶ میں فرمایا: ﴿اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ﴾ ’’یہ لوگ صرف اٹكل اور گمان كے اور خواہش نفسانی كے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، پس جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح سے اپنا دامن ان سے چھڑا لیا اور صاف طور پر ان كے معبودوں اور ان كی عبادت كے طریقوں سے علیحدگی اور ناپسندیدگی كا اعلان فرما دیا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف كی دو ركعتوں اور فجر اور مغرب كی سنتوں میں قُلْ یَآ اَیُّہَا الْكَافِرُوْنَ اور سورئہ اخلاص پڑھتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم كو فرمایا كہ رات كو سوتے وقت یہ سورت پڑھ كے سوؤ گے تو شرك سے بری قرار پاؤ گے۔ (مسند احمد: ۵/ ۴۵۶، ترمذی: ۳۴۰۳، ابوداود: ۵۰۵۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا عمل بھی یہ بتلایا گیا ہے۔ (ابن كثیر) الحمد للہ شان نزول: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما كی روایت ہے كہ یہ سورت ایام تشریق كے درمیان كے دن میں اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے كہ یہ رخصت كی سورت ہے۔ اسی وقت حكم دیا اور آپ كی اونٹنی قصویٰ كسی گئی، آپ اس پر سوار ہوئے اور اپنا وہ پُر زور خطبہ پڑھا جو مشہور ہے۔(مسلم: ۳۰۲۴) سنن بیہقی کی روایت میں ہے كہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا كو بلایا اور فرمایا مجھے میرے انتقال كی خبر آگئی ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں، پھر ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ کان میں کچھ کہا تو یكایك ہنس دیں جب اور لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا خبر انتقال نے تو رلا دیا لیكن روتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلی دی اور فرمایا بیٹی صبر كرو، میری اہل میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آن ملو گی تو مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔