وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔
دین قیم كے تین اركان: اس دین كے اہم اجزا تین باتیں ہیں: (۱)اللہ كو اكیلے ہی خالق ومالك سمجھا جائے اس كے ساتھ كسی كو شریك نہ كیا جائے اور یكسو ہو كر اسی كی عبادت كی جائے۔ (۲)نماز كو ٹھیك طریقے سے باقاعدگی كے ساتھ ہمیشہ ادا كیا جائے۔ (۳)اپنے مال سے زكوٰة ادا كی جائے۔ واضح رہے كہ نماز وزكوٰة وہی ادا كر سكتے ہیں جو عقیدہ آخرت پر یقین ركھتے ہوں۔ سورئہ التوبہ: ۱۱ میں ارشاد ہے: ﴿فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ﴾ ’’پھر اگر یہ مشرك شرك سے توبہ كر لیں اور نماز قائم كریں اور زكوٰة ادا كریں تو تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی كے آخری ایام میں فرمایا: ’’مجھے حكم دیا گیا ہے كہ میں لوگوں سے جنگ كروں یہاں تك كہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ كی شہادت دیں، نماز قائم كریں اور زكوٰة ادا كریں، اگر وہ یہ شرائط تسلیم كر لیں تو ان كی جانیں مجھ سے محفوظ ہو جائیں گی۔ الا یہ كہ وہ اسلام كے كسی حق كے تحت اس حفاظت سے محروم كر دئیے جائیں، رہا ان كے باطن كا معاملہ تو وہ اللہ كے ذمہ ہے۔(مسلم: ۳۱۲)