سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ
وہ رات فجر طلوع ہونے تک سراسر سلامتی ہے۔
سراسر سلامتی ہے: یعنی اس میں شر نہیں یا اس معنی میں سلامتی والی ہے كہ مومن اس رات كو شیطان كے شر سے محفوظ رہتے ہیں اور یہ كہ جو فرشتے نازل ہوتے ہیں وہ ساری رات اللہ كی عبادت كرنے والوں كے لیے امن وسلامتی كی دعائیں كرتے رہتے ہیں اور ایك مطلب یہ ہے كہ اس رات میں جتنے بھی فیصلے كیے جاتے ہیں وہ سب خیر و سلامتی پر مبنی ہوتے ہیں، حتیٰ كہ اگر كسی فرد كی ہلاكت یا كسی قوم كی تباہی كے متعلق فیصلہ كیا جائے تو وہ بھی اہل زمین كی خیر وسلامتی پر مبنی ہوگا۔ اس رات كی خاص دعا: اللّٰہُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ. (ابن ماجہ: ۳۸۵۰، ترمذی: ۳۵۱۳) الحمد للہ سیدنا انس بن مالك رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن كعب (جو نہایت خوش الحان قاری تھے) سے فرمایا كہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حكم دیا ہے كہ میں تمہیں (لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا) سورت پڑھ كر سناؤں‘‘ ابی بن كعب رضی اللہ عنہ كہنے لگے كہ ’’اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے كر فرمایا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ پھر ابی بن كعب رضی اللہ عنہ نے كہا: ’’كیا اللہ تعالیٰ كے سامنے جو سارے جہانوں كا پروردگار ہے میر ذكر آیا؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ یہ سن كر ابی رضی اللہ عنہ كی آنكھوں سے خوشی كے آنسو بہنے لگے۔ قتادہ كہتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یہ سورت سنائی۔ (بخاری: ۳۸۰۵، مسلم: ۷۹۹)