وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
اور جو شخص نیک کاموں میں سے (کوئی کام) کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور کی گٹھلی کے نقطے کے برابر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آخرت کی کامیابی محض اُمیدوں اور آرزوؤں سے نہیں ملے گی۔ اس کے لیے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اس کے برعکس اگر نامۂ اعمال میں بُرائیاں ہونگی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اور وہاں کوئی ایسا دوست اور مددگار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے ساتھ اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے۔ تاکہ وہ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزوؤں اور تمناؤں سے اپنے دامن کو بچاکے رکھیں۔ مرد اور عورت سزا و جزاء کے لحاظ سے برابر ہیں۔ قرآن نے عورت کو یہ حق دلوایا کہ جیسے مرد ایک انسان ہے اسی طرح عورت بھی ایک انسان ہے۔ ایمان اور اعمال میں دونوں برابر ہیں جو نیک کام کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اُسے جنت میں داخلہ ملے گا اس پر ذرا برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مومن کا حال بھی عجیب ہے اسے کوئی خوشی ملتی ہے تو الحمد للہ کہتا ہے اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے گویا دونوں طرح سے فائدے میں ہے۔ (مسلم: ۲۹۹۹) اور فرمایا: ’’مومن کو ہر چیز پر اجر دیا ہے۔ یہاں تک کہ موت کی سختی میں بھی۔‘‘ مومن کو دنیا میں جتنی بھی تکالیف ملتی ہیں اس پر بھی اُسے صلہ ملتا ہے۔ (مسلم: ۲۵۷۴)