الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ
جس نے جھٹلایا اور منہ موڑا۔
جہنم میں گناہ گار مسلمانوں كا داخلہ اور فرقہ مرجئہ كا رد: اس آیت میں مرجئہ فرقے کا رد ہے جو ایك باطل فرقہ گزرا ہے۔ اس فرقہ نے اس آیت سے یہ استدلال كیا ہے كہ جہنم میں صرف کافر ہی جائیں گے۔ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی گناہ گار ہو وہ جہنم میں نہیں جائے گا لیكن یہ عقیدہ بے شمار قرآنی آیات اور احادیث كے خلاف ہے۔ جن میں بصراحت مذكور ہے كہ بہت سے مسلمان بھی، جن كو اللہ تعالیٰ كچھ سزا دینا چاہے گا، كچھ عرصے كے لیے جہنم میں جائیں گے، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، ملائكہ اور دیگر انبیاء و صالحین كی شفاعت سے نكال لے جائیں گے۔ لہٰذا اس آیت كا مطلب یہ ہے كہ دوزخ كے اس خاص مقام میں جو اللہ نے تیار ہی كافروں اور مشركوں كے لیے كیا ہے، جس میں وہ حتمی طور پر ہمیشہ كے لیے داخل ہوں گے صرف کافر ہی داخل ہو گا کوئی مسلمان اس میں داخل نہ ہوگا۔ انہیں دور ركھا جائے گا: یعنی جو لوگ اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے گزارتے ہیں ان كو جہنم كی ہوا تك نہیں لگے گی۔ اس لیے انھیں جہنم سے دور ركھ كر صاف بچا لیا جائے گا۔ مومن كی منزل اللہ كی رضا ہے: یہ آیتیں حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ كے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ وہ ایسا شخص تھا جو ان لوگوں پر مال خرچ كرتا تھا جن كا اس خرچ كرنے والے شخص پر پہلے سے كوئی احسان نہ تھا جس كے بدلے كے طور پر وہ ان پر مال خرچ كرتا بلكہ اس كا مقصود صرف یہ تھا كہ اس كا پروردگار اس سے راضی ہو جائے۔ ابتدائے اسلام میں بوڑھی عورتوں، ضعیف مردوں كو جو مسلمان ہو جاتے تھے آزاد كر دیا كرتے تھے، اس پر ایك مرتبہ آپ كے والد ابو قحافہ نے جو اب تك مسلمان نہیں ہوئے تھے كہا! بیٹا تم جوان كمزور ہستیوں كو آزاد كرتے پھرتے ہو اس سے تو اچھا ہے كہ نوجوان، طاقت ور لوگوں كو آزاد كراؤ تاكہ وہ تمھارے كام آئیں، تمہاری مدد كریں اور دشمنوں سے لڑیں تو صدیق اكبر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا كہ ابا جی میرا ارادہ دنیوی فائدے كا نہیں میں تو صرف رضائے رب اور مرضیٔ مولا چاہتا ہوں۔ ان آیات میں حضرت ابو بكر صدیق رضی اللہ عنہ كی كمال درجہ كی فضیلت ثابت ہوئی ہے۔ اللہ كی بارگاہ سے انہیں بہت بڑا لقب ملا ہے۔ ’’پرہیز گار‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان كی مالی قربانیوں كو شرف قبولیت ہی نہیں بخشتا بلكہ ساری دنیا كے لوگوں كے سامنے اپنی رضا مندی كا اظہار فرمایا۔ پھر انھیں (وَلَسَوْفَ یَرْضَی) كی بشارت بھی سنا دی۔ (تیسیر القرآن) موضوع اور مضمون: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كو تسلی دینا اور پریشانی دور كرنا ہے جو نزول وحی كا سلسلہ رك جانے كی وجہ سے آپ كو ہوئی تھی۔ خوشخبری دی گئی كہ آپ كے لیے ہر بعد كا دور پہلے دور سے بہتر ہوتا چلا جائے گا۔ یہ قرآن كی اُن صریح پیش گوئیوں میں سے ایك ہے جو بعد میں حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ (تفہیم القرآن)