وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ
اور اس نے سب سے اچھی بات کو جھٹلا دیا۔
اس سلسلہ میں چند احادیث: سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما كہتے ہیں كہ: (كَذَّبَ بِالْحُسْنٰی) كا معنی یہ ہے كہ اس كو یہ یقین نہیں كہ اللہ كی راہ میں جو خرچ كرے گا اللہ اسے اس كا بدلہ دے گا۔ (بخاری: ۴۹۴۴) سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ كہتے ہیں كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ایك یہ كہتا ہے: ’’اے اللہ! خرچ كرنے والے كو اس كے عوض اور مال دے‘‘ اور دوسرا كہتا ہے اے اللہ! ’’بخل كرنے والے كے مال كو تلف كر دے۔‘‘ (بخاری: ۱۴۴۲) سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ہم بقیع میں ایك جنازے میں شریك تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ بیٹھ گئے تو ہم سب آپ كے ارد گرد بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ہاتھ میں ایك چھڑی تھی آپ سر جھكا كر چھڑی سے زمین كرید رہے تھے جیسے كسی گہری سوچ میں ہوں پھر فرمایا تم میں سے جو شخص بھی پیدا ہوا ہے اس كاٹھكانا لكھ دیا گیا ہے۔ جنت میں یا دوزخ میں اور یہ بھی لكھا جا چكا ہے كہ وہ نیك بخت ہے یا بدبخت۔ اس پر ایك شخص بولا: یا رسول اللہ! پھر ہم اپنی قسمت كے لكھے پر بھروسہ كرتے ہوئے عمل كرنا چھوڑ نہ دیں؟ كیونكہ جو نیك بختوں میں لكھا گیا ہے وہ آخر نیك بختوں میں شامل ہوگا اور جو بد بخت لكھا گیا ہے وہ بالآخر بد بختوں میں شامل ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں بلكہ عمل كیے جاؤ) كیونكہ جو نیك بخت لكھے گئے ہیں انھیں نیك اعمال كی توفیق دی جاتی ہے اور جو بدبخت لكھے گئے ہیں انہیں ویسی ہی توفیق دی جاتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں۔(بخاری: ۱۳۶۲، مسلم: ۲۶۴۷)