فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا
تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پیس کر ہلاک کردیا، پھر اس ( بستی) کو برابر کردیا۔
ان لوگوں نے سیّدنا صالح علیہ السلام كی تنبیہ كو چنداں اہمیت نہ دی اور اس تنبیہ كو جھوٹ سمجھا۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا كہ میں تجھے دنیا بھر كے دو بد بخت ترین شخص بتلاتا ہوں۔ ایك تو احمیر ثمود جس نے اونٹنی كو مار ڈالا۔ دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر داغ لگائے گا یہاں تك كہ تیسری داڑھی خون میں تر بہ تر ہو جائے گی۔ (حاكم: ۳/۱۴۰۔۱۴۱) اونٹنی كو ہلاك كرنے والا صرف ایك شخص اس قوم میں ذی عزت تھا، شریف تھا، ذی نسب تھا قوم كا رئیس اور سردار تھا۔ لیكن چونكہ اس شرارت میں قوم بھی اس كے ساتھ شریک تھی اس لیے اس میں سب كو برابر كا مجرم قرار دیا گیا، اور عذاب بھی صرف اونٹنی كو ہلاك كرنے والے پر نہیں بلكہ ساری قوم پر آیا۔ جس سے یہ اصول معلوم ہوا كہ ایك برائی كا ارتكاب كرنے والے اگر چند افراد ہوں۔ لیكن پوری قوم اس برائی پر نكیر كرنے كی بجائے اسے پسند كرتی ہے تو اللہ كے ہاں پوری قوم اس برائی كی مرتكب قرار پائے گی اور اس جرم یا برائی میں برابر كی شریك سمجھی جائے گی۔