لَّعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
جس پر اللہ نے لعنت کی اور جس نے کہا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا۔
ایسی جھوٹی آرزوئیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ دوزخ کی آگ انھیں چھوہی نہیں سکتی ماسوائے چند دنوں کے جن میں انھوں نے گائے کو پوجا تھا۔ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے چہیتے اور پیارے ہیں۔ لہٰذا ہمیں آخرت میں عذاب نہ ہوگا، شیطان انسانوں کو دنیا کی کامیابیوں کے پیچھے دیوانہ کرتا ہے، خواہشات کو خوبصورت بناکر پیش کرتا ہے۔ سب سے پہلا حملہ عقیدہ پر کرتا ہے۔ پھر انسان یقین سے ہٹ کر شک کی طرف چل پڑتا ہے اور کتاب اللہ کو پیچھے ڈال دیتا ہے۔دنیا میں کامیابیوں کے لیے پیروں، فقیروں سے راہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کو توجہ کا مرکز بنانا شرک ہے۔ اس لیے توجہ کا مرکز صرف اور صرف اللہ ہی ہونا چاہیے، اللہ نے انسان کو با اختیار بنایا ہے۔ اس کی راہنمائی کے لیے رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں، انسان اپنی عقل سے اللہ کے راستے پر چل سکتا ہے۔ لیکن شیطان اُسے ہر وقت اس راستے سے بھٹکاتا رہتا ہے۔ اور انسان یہ بھول جاتا ہے کہ میں نے لوٹ کر اللہ کے پاس جانا ہے۔ اس طرح شیطان بندوں کا مقررہ حصہ اپنے ساتھ کرکے انھیں جہنمی بنادیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ﴾ (الاعراف: ۱۷۹) اور ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں۔