وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ
اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی۔
تقدیر كا معنی ہے اندازہ كرنا۔ ہر چیز بنانے سے پہلے یہ طے كر دیا گیا كہ اس نے دنیا میں كیا كام كرنا ہے اور اس كام كے لیے اس كی مقدار كیا ہے۔ اس كی شكل اس كی صفات كیا،ہوں اس كا مقام كس جگہ ہو اس كے بقا و قیام اور فعل كے لیے كیا مواقع اور ذرائع فراہم كیے جائیں۔ کس وقت وہ وجود میں آئے كب تك اپنے حصے كا كام كرے اور كب كس طرح ختم ہو جائے اس پوری سكیم كا مجموعی نام تقدیر ہے۔ یہ تقدیر اللہ تعالیٰ نے كائنات كی ہر چیز كے لیے مجموعی طور پر بنائی ہے۔ یہ یونہی الل ٹپ نہیں ہو گئی بلكہ اس كے بارے میں پورا ایك منصوبہ خالق كے پیش نظر تھا اور سب كچھ اس منصوبے كے مطابق ہو رہا ہے۔ (تفہیم القرآن) راہ دكھائی سے مراد: یہ ہے کہ جس چیز كو جس مقصد كے لیے پیدا كیا اس كی فطرت میں وہ كام كرنے كا طریقہ بھی ودیعت كر دیا، مثلاً ہر دودھ پلانے والے جاندار كا بچہ پیدا ہوتے ہی ماں كی چھاتیوں كی طرف لپكتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دودھ چوسنے كا طریقہ فطرتاً سكھا دیا۔ اسی طرح كائنات كی ایك ایك چیز كو وہ راہ سجھا دی جس كے لیے وہ پیدا كی گئی ہے۔ مثلاً دل كی ساخت ایسی بنائی كہ وہ سارے جسم كو خوں بہم پہنچائے۔ انسان چونكہ دوسری تمام مخلوق سے ممتاز حیثیت ركھتا ہے اس لیے اس كو دو قسم كی ہدایت دی گئی۔ (۱) اضطراری جو اس كی طبعی زندگی سے تعلق ركھتی ہے، اس لحاظ سے وہ دوسرے جاندار سے مختلف نہیں۔ (۲) دوسری ہدایت اختیاری ہے جو اس كی عقل و شعور اور اخلاقایات سے تعلق ركھتی ہے۔ اسی دوسری ہدایت كو اُجاگر كرنے كے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء بھیجے اور كتابیں نازل فرمائیں۔ (تیسیر القرآن)