ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ
عرش کا مالک ہے، بڑی شان والا ہے۔
عرش كا مالك ہے: وہ اپنے بندوں سے پیار و محبت ركھتا ہے۔ وہ اپنی مخلوقات میں معظم و بلند ہے اور عرش جو سب سے اوپر ہے۔ وہ اس كا مستقر ہے۔ صاحب فضل و كرم ہے۔ اس كاعرش پوری كائنات كو گھیرے ہوئے ہے اور (مجید) كا مطلب شان و شوكت میں بڑا كہہ كر انسان كو متنبہ كیا گیا ہے كہ وہ ایسی ہستی كے مقابلہ میں گستاخانہ رویہ چھوڑ دیں ورنہ اس كی پكڑ سے بچ كر كہیں نہیں جا سکتے۔ پوری كائنات میں كسی كی بھی یہ طاقت نہیں كہ اللہ جس کام كا ارادہ كر لے، اس کے كرنے پر قدرت ركھتا ہے۔ اس كی عظمت و حكمت كی بنا پر نہ كوئی اسے روك سكے نہ پوچھ سكے۔ تفسیر قرطبی میں ہے: حضرت صدیق اكبر رضی اللہ عنہ سے ان كی اس بیماری میں جس میں آپ كا انتقال ہوتا ہے۔ لوگ سوال كرتے ہیں كہ كسی طبیب نے بھی آپ كو دیكھا؟ فرمایا ہاں، پوچھا پھر كیا جواب دیا؟ فرمایا كہ جواب دیا: (اِنِّی فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ) میں جو چاہوں كروں میرے معاملہ میں كوئی دخل دینے والا نہیں۔ (ابن كثیر) مطلب یہ تھا كہ معاملہ اب طبیبوں كے ہاتھوں میں نہیں رہا۔ میرا آخری وقت آ گیا ہے اور اللہ ہی میرا طبیب ہے۔ جس كی مشیت كو ٹالنے كی كسی كے اندر طاقت نہیں۔